ایک غیر ملکی رسالہ میں نریندر مودی پر تبصرہ 

’سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا‘

عبدالعزیز

برطانیہ کا ”ایجنٹ آرینج“ (Agent Orange) رقمطراز ہے ”زعفرانی پارٹی کے مسٹر نریندر مودی ہندستانی جمہوریت کیلئے سنگین خطرہ ہیں“۔ اس نے لکھا ہے کہ مسٹر راہل گاندھی کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت مودی حکومت سے بہت زیادہ بہتر ہوگی۔ اگر یہ کسی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا تو بی جے پی کی سربراہی میں اگر کوئی مخلوط حکومت کی تشکیل ہوتی ہے تو نریندر مودی کے بجائے کسی اور کی سربراہی میں ہو تو ملک کیلئے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ نریندر مودی 2002ء میں گجرات فسادات کو روک نہیں سکے اور نہ ہی وہ بدنما داغ اپنی شخصیت سے مٹاسکے جو گجرات فسادات کی وجہ سے ان کی شخصیت پر چسپاں ہے۔ 

’ایجنٹ آرینج‘ نے 2014ء میں میگزین ’اکنومسٹ‘ (Ecnomist) میں سوال کیا تھا جب نریندر مودی کو غیر معمولی کامیابی لوک سبھا الیکشن میں ملی تھی۔ مودی جی ہندستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے یا ملک میں تعصب اور فرقہ واریت کا فروغ کرنے کی سعی و جہد کریں گے؟ ’ایجنٹ آرینج‘ اب لکھتا ہے کہ وہ نہ اچھے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے اور نہ ہی اتنے برے ہیں جیسا کہ سمجھا جاتا لیکن ہندستان کیلئے بہتر ہے کہ ایسے لیڈر سے چھٹکارہ حاصل کرلیا جائے۔ نریندر مودی اپنے آپ کو مرد آہن سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ناک میں وہی دم کرسکتے ہیں اور اس کے مقابلے پامردی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ مودی نے پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کیلئے نیو کلیئر ہتھیار کو بھی بے دریغ استعمال کرنے جیسی احمقانہ بات کہی ہے جبکہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے پاس بھی نیو کلیئر طاقت ہے۔ اگر ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی برقرار رہتی ہے تو دونوں ملکوں کیلئے تباہی و بربادی ہے۔ نریندر مودی نے جموں اور کشمیر میں جو پالیسی اختیار کی وہ بھی تباہی و بربادی ہی ثابت ہوئی ہے۔
’ایجنٹ آرینج‘ آگے لکھتا ہے کہ نریندر مودی نے ہندستان کی معاشی حالت کو بدلنے کیلئے ’نوٹ بندی‘ اور ’جی ایس ٹی‘ کا بھی تجربہ بغیر سوچے سمجھے کر ڈالا جس سے بھی ملک کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب پوری دنیا میں پٹرول کی قیمتوں میں گراوٹ ہوئی تھی تو مودی جی نے اس وقت بھی قیمتوں کی تخفیف سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ملک میں جو خود مختار ادارے تھے اس میں مودی نے مداخلت کرکے ملک کی جمہوری قدروں کو پامال کردیا۔ اپنے سیاسی حریفوں کیلئے سرکاری مشنری کو استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ میڈیا کی آزادی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا۔ فوج کو بھی اپنی پارٹی کی سیاسی ترقی کیلئے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بنگلہ دیش کے دراندازوں کو بھی آنکھ دکھانے کی کوشش کی۔ 
نریندر مودی نے جو سب سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن کام کیا وہ ہے ہندو مسلم کی تفریق۔ اس کیلئے انھوں نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو فرقہ پرستی میں بدنام زمانہ ہے۔’ایجنٹ آرینج‘ نے اس پر بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ مودی جی نے 2002ء کے گجرات فساد کیلئے بھی نہ شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ معافی مانگی۔ ’ایجنٹ آرینج‘ نے یہ بھی لکھا ہے کہ کانگریس میں بدعنوانی اور دوسری خرابیاں ہوسکتی ہیں مگر وہ ملک کی جمہوریت اور دستور کیلئے خطرہ نہیں ہے۔ کانگریس کا انتخابی منشور بہت ہی ترقی پسندانہ ہے۔ کانگریس ترقی پسند نظریات کی ترجمانی کر رہی ہے۔ مسٹر راہل گاندھی ملک کو ہر شعبہئ زندگی میں آگے لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ملک کو جدید بنانے کا بھی ان کا سپنا ہے۔ میڈیا میں انھوں نے مودی کے امیج کو ہوبہو پیش کرکے ووٹروں کو ان کی اصلیت بتانے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن کانگریس اس قدر آگے نہیں بڑھی ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں کی مدد کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ ممکن ہے بی جے پی پھر سے اقتدار میں آجائے۔ جو بھی مخلوط حکومت ہندستان میں الیکشن کے بعد وجود میں آئے اس کی سربراہی نریندر مودی نہ کریں جب ہی ملک کی ترقی اور فلاح ممکن ہے۔ بی جے پی حکومت یا غیر بی جے پی حکومت سے نریندر مودی جیسے فرقہ پرست کو دور رکھنا ہر حال میں بہتر ہوگا۔ نریندر مودی کی حکومت میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں جن سے ملک کو جوجھ رہا ہے وہ نریندر مودی کو منظر سے الگ کئے بغیر ہر گز ختم نہیں ہوگا۔ 
تبصرہ: ایک غیر ملکی رسالہ میں نریندر مودی سے ملک ہندستان کو بچانے کی بات کہی گئی ہے ممکن ہے نریندر مودی کے چاہنے والے اسے ملک دشمنی پر محمول کریں مگر دیکھنا چاہئے کہ بالکل ایسی باتیں اپوزیشن پارٹیاں بھی کم و بیش کہہ رہی ہیں کہ مودی اور شاہ کی جوڑی سے ملک کو نجات ملنی چاہئے۔ بی جے پی کے اندر بھی کچھ لوگ مودی سے پناہ مانگ رہے ہیں مگر وہ ڈر سے آواز بلند نہیں کرسکتے لیکن اگر بی جے پی کو اکثریت نہیں ملی تو بی جے پی کے ایک حصہ کا خیال ہے کہ اس وقت این ڈی اے میں شامل جماعتوں کی مدد سے جو حکومت کی تشکیل ہوگی اس کی سربراہی نیتن گڈکری کرسکتے ہیں۔ 
ابھی جو سروے مختلف اداروں کے ذریعہ آرہا ہے اس میں بی جے پی یا این ڈی اے کو اکثریت نہیں مل رہی ہے بلکہ کانگریس اور ریاستی پارٹیوں کی اکثریت بتائی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ غیر بی جے پی یا غیر این ڈی اے حکومت کی تشکیل ہو جس سے ملک وقوم کو مودی جی اور ان کی زعفرانی پارٹی سے نجات مل جائے۔ پندرہ سولہ دنوں کے بعد جو کچھ بھی ہونے والا ہوگا وہ سامنے آجائے گا خدا کرے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ملک کو اچھی خبر ملے اور ملک کو شر اور فتنہ و فساد سے چھٹکارہ مل جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

en_GBEnglish