نریندر مودی نے گجرات کے فساد (2002)میں جو کردار ادا کیا تھا اس کی وجہ سے اس قدر بدنام زمانہ ہوگئے تھے کہ کوئی ملک انھیں ویزا دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بیرونی ملکوں نے دروازہ کھول دیا پھر تو ان کی زندگی میں بہار آگئی۔ دنیا بھر کا چکر لگایا مگر افسوس کہ سیکھا کچھ بھی نہیں۔ 2002ء ہی میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بھی انھیں گجرات کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سے برطرف کرنے کی کوشش کی تھی مگر ظالموں نے مودی کی مدافعت اور وکالت کی جو آج پچھتا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہیں ان کے استاد محترم ایل کے ایڈوانی جو اپنی بھول کے شکار ہیں۔ نریندر مودی وزیر اعلیٰ گجرات کی کرسی سنبھالنے سے لے کر آج تک جو بیانات دیئے ہیں ان سب کو اگر جسم عطا کر دیا جائے تو دنیا کا بڑا سے بڑا شرپسند اور ظالم مودی سے شرمائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نریندر مودی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مودی ہی نے مسلمانوں کو کتیا کے بچہ سے تشبیہ دی تھی۔ مودی نریندر مودی نے مسلمانوں کی تطہیر کی بات کی تھی۔ مودی ہی ہیں جو اپنے حریف کو غدارِ وطن اور پاکستانی کہنے سے باز نہیں آتے۔ مودی ہی ہیں جو اپنے پریوار بشمول یوگی، پرگیہ ٹھاکر کے سوا کسی کو بھی ہندو نہیں سمجھتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نریندر مودی کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت ایک ایسے پاٹھ شالہ (اسکول) میں ہوئی ہے جہاں ناتھو رام گوڈسے (قاتل) کی پوجا اور پرستش ہوتی ہے اور مہاتما گاندھی (مقتول) جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی لعنت و ملامت کی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی پر نریندر مودی کے بیان پر بہتوں کو تعجب و حیرت ہوئی مگر راقم کو اس لئے حیرت نہیں ہوئی ہے کہ پیالہ میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ٹپکتا ہے۔ نریندر مودی نے راجیو گاندھی کو بدعنوان نمبر ایک کی سند دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بیٹے اور بیٹی نے ان کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا ہے کہ وہ شاید ہی زندگی بھر بھول سکیں۔
“Modi ji, the battle is over. Your Karma awaits you. Projecting your inner beliefs about yourself onto my father won’t protect you. All my love and a huge hug. Rahul.”
”مودی جی جنگ ختم ہوچکی ہے۔ اب آپ کا بارِ گناہ (کرما) آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ آپ اپنے اندر کی غلاظت او ر گندگی کو میرے مرے ہوئے باپ پر پھینک رہے ہیں۔ میرا آپ کیلئے ڈھیر سارا پیار اور محبت“۔
پرینکا گاندھی نے جواباً کہا:
“The prime minister, who is seeking votes in the name of martyrs, yesterday disrespected the martyrdom of a noble man. People in Amethi will give a befitting reply.”
”وزیر اعظم جو شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگ ہے ہیں وہ ایک شریف اور نیک انسان کی شہادت پر کیچڑ اچھال کر نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امیٹھی کے عوام انھیں منہ توڑ جواب دیں گے“۔
حقیقت میں مودی کی خود پرستی نے انھیں کہیں کا نہیں رکھا، اب تو وہ زبان حال کہہ ہے ہیں ؎
لذت کبھی تھی اب تو مصیبت سی ہوگئی …… مجھ کو گناہ کرنے کی عادت سی ہوگئی
مودی جی نے اپنی ہی پارٹی کے سب سے عظیم المرتبت لیڈر اٹل بہاری واجپئی کی یہ بات بھول گئے جو انھوں نے کہی تھی:
”میں سخت بیمار تھا، راجیو گاندھی کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے مجھ سے کہاکہ آپ یو این او کے اجلاس میں شرکت کیجئے اور ملک کی نمائندگی کیجئے، ساتھ ہی ساتھ آپ کیلئے آسانی ہوگی کہ آپ وہاں جاکر اپنا علاج بھی کرالیجئے۔ مجھے تو راجیو گاندھی نے ایک نئی زندگی عطا کی“۔
آج اسی راجیو گاندھی کو انہی کی پارٹی کے ایک شخص کو راجیو گاندھی سب سے بدعنوان شخص معلوم ہورہاہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے راجیو گاندھی 1999ء میں بھی کلین چٹ دے دی تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کی پانچ سال کی حکومت تھی جسے بھاجپا کی حکومت کہنا چاہئے۔ راجیو گاندھی کو برا بھلا کہنے سے پہلے مودی جی کو اپنی پارٹی کو برا بھلا کہنا چاہئے۔
بہت ہی عظیم دانشور، صحافی اور مصنف، مہاتما گاندھی کے نواسے راج موہن گاندھی کا ایک مضمون نریندر مودی کے مغلظات کے جواب میں ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں آج (7مئی2019ء) شائع ہوا ہے۔
مسٹر راج موہن گاندھی نے پہلے بتایا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں بوفورس اسکینڈل سے صدمہ پہنچا تھا لیکن جب وہ امیٹھی سے راجیو گاندھی کے مقابلے میں جنتا دل کے ٹکٹ پر کھڑے تھے انھوں نے مہم کے دوران بوفورس گھٹالے کا ذکر تک نہیں کیا۔ ملائم سنگھ یادو اور وی پی سنگھ (جو بعد میں 1989ء میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے) ان کیلئے امیٹھی آئے تھے۔ مجھے شکست ہوئی تھی پھر بھی راجیو گاندھی نے مجھے اتر پردیش سے راجیہ سبھا کیلئے بھیجا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”1991ء میں کسی ایک بھی ایسے ممبر پارلیمنٹ سے نہیں ملا جو راجیو گاندھی کو بدعنوان سمجھتے ہوں، خواہ وہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا حزب مخالف سے، ہر ایک کو راجیو گاندھی کی شہادت سے گہرا صدمہ ہوا، یہاں تک کہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا راجیو گاندھی نے کرپشن کو برداشت کیا یا بڑھاوا دیا۔ آج 28سال بعد اس پر تہمت لگانے والا شخص کیسا ہوسکتا ہے دنیا سمجھ سکتی ہے۔
مسٹر راج موہن گاندھی نے مزید لکھا ہے کہ 23 مئی کو جو بھی نتیجہ نکلے مگر اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ کے انتخابی اجلاس میں جو امیٹھی سے قریب ہے نریندر مودی نے جو کچھ راجیو گاندھی جیسے شریف النفس انسان کیلئے کہا ہے تاریخ نے اسے اپنے صفحات میں ریکارڈ کرلیا ہے جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نریندر مودی کی بوکھلاہٹ اور شرارت اس وقت ایسی جگہ پہنچ چکی ہے کہ ان کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ چار مرحلوں کے انتخابی سروے کا انھیں علم ہوچکا ہے پانچویں مرحلے کیلئے جان کی بازی لگا چکے۔ ابھی دو اور مرحلے باقی رہ گئے ہیں۔ ان کو معلوم ہوگیا کہ شاید ان کی دنیا اندھیری ہوجائے۔ ان کا 50 سال حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوسکتا ہے۔ راہل گاندھی نے صحیح کہا ہے کہ اب جنگ ختم ہوچکی بہت جلد انھیں ان کے کرموں کی سزا ملنے والی ہے۔
مودی کا شرمناک بیان
’پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‘
عبدالعزیز